واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 خلیفئہ رسول اللہ حضرت ابوبکرصدیق

 

رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 

       ام الخیر سلمیٰ مکان کے صحن میں اداس و غمزدہ بیٹھی گہری سوچوں میں مستغرق تھی۔ اتنے میں عثمان ابوقحافہ اندر داخل ہوا۔ بیوی کو افسردہ دیکھا تو قریب جاکر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا ”ام الخیر کیا بات ہے“۔ ”تم میرے روگ کو بخوبی جانتے ہو، میں نے لات و عزیٰ کا کیا بگاڑا ہے جو میرے بچے زندہ نہیں رہتے“۔ اس کی آواز میں گہرا کرب نمایاں تھا۔ ”یہ تو ہمارے خدا ہی بہتر جانتے ہیں، کوئی کیا کہہ سکتا ہے“۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

                                                                   

         عام الفیل کی ایک خوبصورت صبح تھی۔ ابوقحافہ کے گھر عورتوں کا جھمگٹا تھا کیونکہ آج اس کے ہاں ولادت ہونے والی تھی۔ ابوقحافہ باہر منتظر بیٹھا تھا کہ کسی نے آکر خبر دی کہ ”ابوقحافہ تمہیں بیٹے کی مبارک ہو“۔ وہ دوڑتا اندر گیا تو بیوی کے پہلو میں خوبصورت بچے کو دیکھ کر بے حد خوش ہوا“۔ بیوی نے کہا ”میں نے کعبے میں منت مانی تھی کہ بیٹا ہوا اور زندہ رہا تو عبدالکعبہ نام رکھوں گی۔لہذا  آپ کا نام عبدالکعبہ رکھا گیا۔جب حضرت ابوبکر صدیقؓ ایمان لائے تو رسول اکرم حضرت محمد ﷺ نے آپ کا نام  عبدالکعبہ سے بدل کر عبداللہ رکھ دیا۔

              وقت پر لگاکر اڑتا رہا۔ ایک دن سلمیٰ نے ابوقحافہ سے کہا کہ جب تو کعبہ جایا کرے تو کبھی کبھی بیٹے کو ساتھ لیجایا کر۔ ایک دن سوئے کعبہ جاتے ہوئے بیٹے کو دیکھا تو ساتھ لے لیا۔ راستہ میں عبداللہ نے ایک پتھر ہاتھ میں اٹھالیا۔ عثمان نے کہا ”بیٹا اسے پھینک دو، کعبہ میں پتھر نہیں لے جاتے“۔ ”اچھا تو اتنے پتھر کے بت جو کعبہ میں موجود ہیں“۔ عثمان ابوقحافہ لاجواب ہوگیا۔ ”اچھا اسے جیب میں ڈال لو“۔ لیکن جیب چھوٹی تھی پتھر بڑا، اس لیے ہاتھ میں ہی رہا۔ کعبہ میں پہنچ کر ابوقحافہ نے کہا ”بیٹے یہ ہمارے خدا ہیں انہیں سجدا کرو“۔ ”یہ ہمارے خدا ہیںعبداللہ نے حیرت و استعجاب سے کہا اور ہاتھ میں پکڑا ہوا پتھر ایک بڑے سے بت کو مارا جس سے اس کی ناک کا ٹکڑا اڑ گیا۔ ابوقحافہ بھونچکا رہ گیا۔

            وقت گزرتا رہا۔ عبداللہ کی حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلم سے بچپن سے دوستی تھی، لیکن اس میں بھی ادب کا پہلو نمایاں نظر آتا تھا، حالانکہ وہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم سے صرف ڈھائی سال چھوٹے تھے۔ عام الفیل میں جب حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلم اپنے کفیل تایا حضرت زبیر بن عبدالمطلب کے ہمراہ تجارتی سفر پر ملک شام روانہ ہونے لگے تو فرمائش کرکے اپنے دوست عبداللہ کو بھی ساتھ لے لیا ۔ زمانۂ جاہلیت سے قبول اسلام تک بھی آپ کی حیات مبارکہ تمام اخلاق رذیلہ سے پاک نظر آتی ہے۔ کبھی شراب کو ہاتھ نہ لگایا اورنہ کبھی جوئے کے قریب گئے۔

           اولین ایمان لانے والوں میں آپ کے علاوہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن حارثہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  شامل ہیں ۔آپ رؤسائے قریش میں شمار ہوتے تھے اور کپڑے کے مشہور تاجر تھے۔ قبولِ اسلام کے وقت آپ کا چالیس ہزار درہم کا سرمایہ کاروبار میں لگا ہوا تھا۔ لیکن ہجرت کے وقت آپ کے پاس فقط پانچ ہزار باقی بچے تھے۔ اس سے یہ بات عیاں ہے کہ آپ نے جان، مال، تن من دھن سب راہِ خدا میں قربان کردیا۔ ۔

            سن ۱۳ نبوت میں واقعۂ ہجرت پیش آیا جو قربانی، جاں نثاری اور محبت رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کا ایک درخشاں باب ہے۔ آپ نے کس درجہ اپنی جان کو داؤ پر لگاکر نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی، حضرت عمر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی زبانی سنیئے۔ فرماتے ہیں ”خدا کی قسم ابوبکر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ایک رات آلِ عمر سے افضل ہے اور ان کا ایک دن آلِ عمر سے افضل ہے“۔ فرمایا جس رات حضور غارِ ثور تشریف لے گئے اور ابوبکر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ساتھ تھے تو حال یہ تھا کہ کبھی ابوبکر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلنے لگتے کبھی پیچھے چلنے لگتے۔ حضور نے وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم مجھے پیچھا کرنے والوں کا خیال آتا ہے تو پیچھے چلنے لگتا ہوں اور جب یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں آگے کوئی خطرہ نہ ہو تو آگے آ جاتا ہوں۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارا مطلب یہ ہے کہ کوئی آفت آئے تو میرے بجائے تم پر آئے“۔ عرض کی جی ہاں۔

                بار خلافت سنبھالنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے اسلام لشکر کو اسامہ بن زید   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی سرکردگی میں بھیجا۔ یہ لشکر حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے ہی تیار کیا تھا لیکن آپ کے وصال کی وجہ سے رکا رہا۔ ہرچند کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتنہ ارتداد اور مدینہ کو لاحق دوسرے قبائل کے خطرے کی وجہ سے لشکر بھیجنے کو ملتوی کرنے کا مشورہ دیا، لیکن آپ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا ”بخدا اگر مدینہ آدمیوں سے خالی ہوجائے اور درندے آکر میری ٹانگ کھینچ لیں تب بھی میں اس مہم کو نہیں روک سکتا جسے بھیجنے کا فیصلہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا“۔آپ نے جن مرتدین کو زمین بوس کیا ان میں یمن کا الاسود عنسیٰ، یمامہ قبیلہ کا مسیلمہ، نجد کا طلیحہ، قبیلہ تمیم کی کاہنہ سجاح شامل ہیں۔ منکرین زکوۃ کو سبق دینے کے لیے بھی آپ نے فورًا لشکر روانہ کیا۔ ان مہمات کے علاوہ آپ نے دوسرے ملکوں کی طرف بھی لشکر روانہ کئے۔ مملکت اسلامی آپ کے دور میں جنوبی عراق اور شام تک جا پہنچی اور دنیا کے ایک بڑے حصے پر پرچم اسلام لہرانے لگا۔

 حضرت ابوبکر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے پانچ شادیاں کیں۔

۱۔ قبیلہ عامر کی قتیلہ بنت عبدالعزیٰ جن سے عبداللہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور اسماء   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پیدا ہوئے۔ یہ مسلمان نہیں ہوئیں اور علیحدگی اختیار کرلی۔

۲۔ قبیلہ کنانہ کی ام رومان بنت عامر رضی اللہ عنہا جن سے عبدالرحمٰن   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عائشہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئے۔

۳۔ قبیلہ کلب کی ام بکر، انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا اس لیے حضرت ابوبکر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ان کو طلاق دیدی۔

۴۔ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا جن سے محمد بن ابی بکر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پیدا ہوئے۔

۵۔ مدنی خاندان کی حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہا، ان سے ام کلثوم رضی اللہ عنہا آپ کے وصال کے بعد پیدا ہوئیں۔

 آپ کی چار پشتوں کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے۔

          آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے آخری ایام علالت میں حضرت صدیق   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو امامتِ نماز کے لئے مقرر فرمایا تھا۔ ایک دفعہ ان کو کچھ دیر ہوگئی تو حضرت بلال   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حضرت عمر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو کھڑا کیا۔ حضرت عمر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کچھ بلند آواز تھے، جب انہوں نے تکبیر کہی تو حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ابوبکر کہاں ہے، اس چیز کو نہ تو اللہ پسند کرے گا نہ مسلمان“۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیںابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما مراتب نبوت محمدی صلّی اللہ علیہ وسلم کے حامل ہیں، کیونکہ ان دونوں کے کمالات انبیاء علیہم السلام کے کمالات سے مشابہ ہیں اور رفیق نبی صلّی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  گویا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے ہم خانہ ہیں، اگر فرق ہے تو بس یہ کہ پیغمبر خدا صلّی اللہ علیہ وسلم فوقانی منزل میں ہیں اور رفیق پیغمبر تحتانی منزل میں ہیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما جنگ بدر میں کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ حضرت ابوبکر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ان کے مقابلے میں جانے لگے تو حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا اور فرمایا ”اے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ہمیں اپنی ذات سے فائدہ اٹھانے کا موقع دو، کیا تم نہیں جانتے کہ میرے نزدیک تمہارا وجود میری سماعت و بصارت کی طرح ہے۔

                یہ عشق حبیب خدا صلّی اللہ علیہ وسلم ہی تو تھا جس نے آپ کو اتنا درجہ عطا کیا۔ غمِ مصطفیٰ آپ کی رگ رگ میں سمایا ہوا تھا۔ آپ محبوب رب العالمین کی ذات اقدس میں اس درجہ فنا تھے کہ اپنی ذات نظر نہ آتی تھی۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم سے لمحہ بھر جدائی آپ کو گوارا نہ تھی۔ سردیوں کی راتوں میں گرم پانی کیئے بیت رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کے باہر کھڑے رہتے مبادہ رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کو وضو کے لئے گرم پانی کی ضرورت پڑے۔ جب ایک مرتبہ آپ (رضی اللہ عنہ) سے آپ کی تین پسندیدہ خواہشیں پوچھی گئیں تو آپ نے جن خواہشات کا اظہار فرمایا ان سے بھی ان کا فنا فی الرسول ہونا اظہر من الشمس ہے۔ یعنی زیارت مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے حبیب صلّی اللہ علیہ وسلم پر مال قربان کرنا اور اپنی بیٹی آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دینا۔

          تقویٰ تمام نیکیوں کی جڑ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق    رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر اس کا اتنا اثر تھا کہ کبھی فرماتے ”کاش میں مومن کے سینے کا بال ہوتا، انسان نہ ہوتا“۔ کبھی فرماتے ”کاش میں سرراہ ایک درخت ہوتا، اونٹ گذرتا تو مجھ کو پکڑتا، مارتا، چباتا اور میری تحقیر کرتا اور پھر مینگنی کی صورت میں نکال دیتا۔ یہ سب کچھ ہوتا مگر میں بشر نہ ہوتا“۔ چڑیا کو دیکھ کر فرماتے ”تو مجھ سے اچھی ہے کہ تجھ سے مواخذہ نہ ہوگا“۔ اسی خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ کوئی معمولی سی بھول چوک بھی اگر ہوجاتی تو سخت ندامت اور پشیمانی ہوتی اور جب تک اس کی تلافی نہ کرلیتے چین نہ آتا۔

          راہ خدا میں خرچ کرنے میں بلاشک آپ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سب سے بڑھ گئے۔ تمام پونجی بلکہ گھر کا سامان تک حبیب خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لاکر رکھ دیا۔ آپ نے نو کِبار صحابہ یعنی حضرت بلال، حضرت عامر بن فہیرا، حضرت نہدیہ، حضرت جاریہ بنت مومل، حضرت زیزہ، حضرت حمامہ، حضرت ابوبکیہ، حضرت امّ عبیس، حضرت لبنیہ رضی اللہ عنہم کو اپنے پاس سے منہ مانگی رقم دے کر آزاد کرادیا۔ اس پر اخلاص کا یہ عالم تھا کہ جب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ”جان و مال کے لحاظ سے مجھ پر ابوبکر سے زیادہ کسی کا احسان نہیں“ تو آپ آبدیدہ ہوکر عرض کرتے ”یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم جان و مال سب حضور ہی کے لیے ہے“۔

           مومن کی فراست کے بارے میں حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ چونکہ حضرت صدیق اکبر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سب سے زیادہ قوی الایمان تھے، ان کے نور فراست کا یہ عالم تھا کہ جب وصال کا وقت قریب آیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا ”میں نے تم کو جو جائیداد دی ہے اس کو میرے بعد کتاب اللہ کے قانون کے مطابق بھائیوں اور بہنوں میں تقسیم کرلینا“ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی ”ابا جان میری تو ایک ہی بہن (اسماء رضی اللہ عنہا) ہے، پر آپ نے ”بہنوں“ کیسے فرمایا؟“ آپ نے اپنی بیوی حضرت حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہا جو امید سے تھیں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ”میرا خیال ہے بچی پیدا ہوگی“۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

         امام زہری رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے ”آواز دردناک تھی، بات بہت کم کرتے تھے، قلب نہایت رقیق و نرم تھا، قرآن پاک پڑھتے تو آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی جس سے اوروں پر بھی اثر ہوتا۔ چنانچہ ابن الدغنہ نے جب آپ کو ہجرت حبشہ سے واپس لاکر اپنی پناہ میں رکھا، وہاں آپ قرآن پاک بلند آواز سے پڑھتے تو مشرکین کے نوجوان لڑکے اس طرف دوڑ پڑتے جس پر ان کے والدین نے ابن الدغنہ سے شکایت کی۔

             ایک مرتبہ آپ ایک قبیلے میں گئے، وہاں پینے کے لیے پانی مانگا تو لوگوں نے شہد اور پانی ملاکر پیش کیا۔ آپ نے پیالہ منہ سے لگاکر ہٹالیا اور رونے لگے۔ جو لوگ آس پاس بیٹھے ہوئے تھے ان پر بھی ایسی رقت طاری ہوئی کہ وہ بھی رونے لگے۔ جب حالت کچھ سنبھلی تو لوگوں نے وجہ دریافت کی۔ آپ نے فرمایا ”میں ایک دن رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، میں نے دیکھا کہ آپ کسی چیز کو دور دور کہہ رہے تھے، میں نے پوچھا یا رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وسلم) آپ کس چیز کو دور کہہ رہے ہیں؟ ارشاد ہوا دنیا میرے سامنے مجسم ہوکر آگئی تھی، میں نے اس سے کہا دور ہوجا تو ہٹ گئی، لیکن پھر آگئی اور کہا آپ مجھ سے بچ کر نکل جائیں لیکن آپ کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ تو بچ نہیں جاسکتے“۔ اتنا بیان کرنے کے بعد حضرت ابوبکر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا ”اس وقت مجھ کو وہی بات یاد آگئی اور مجھے خوف ہوا کہ دنیا کہیں مجھ سے چمٹ نہ جائے“۔

          وصال کے روز حضرت عمر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو بلاکر انہیں فرمایا کہ ”مجھے امید ہے کہ آج میری زندگی ختم ہوجائیگی۔ اگر دن میں میرا دم نکلے تو شام سے پہلے اور اگر رات کو نکلے تو صبح سے پہلے مثنیٰ کے لیے کمک بھیج دینا۔ حضرت مثنیٰ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس وقت عراق کے محاذ پر لڑ رہے تھے۔ پھر ان کو کچھ اور ہدایات دیں۔ دریافت فرمایا ”حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے کس روز رحلت فرمائی تھی“ لوگوں نے بتایا پیر کے روز۔ ارشاد فرمایا ”میری بھی یہی آرزو ہے کہ میں آج رخصت ہوجاؤں“۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا ”حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا؟“ عرض کیا تین کپڑوں کا۔ فرمایا میری کفن میں بھی اتنے کپڑے ہوں۔ دو یہ چادریں جو میرے بدن پر ہیں دھولی جائیں اور ایک کپڑا بنالیا جائے۔ آخری الفاظ یہ تھے ”اے اللہ مجھے مسلمان اٹھا اور اپنے نیک بندوں میں شامل کر“۔ جب روح اقدس نے پرواز کی تو 22 جمادی الآخر 13ھ تاریخ، پیر کا دن، عشاء مغرب کا درمیانی وقت، عمر اقدس 63 سال تھی۔ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بن عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا۔ حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہم جسم اطہر پر پانی بہاتے تھے۔ حضرت عمر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نماز جنازہ پڑھائی۔ وصیت کے مطابق حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف دفن کیے گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔